Recent-Post

header ads

ضروریات اہلسنّت کیا ہیں؟ کم از کم دو تین مثالیں دے کر سمجھائیں

 مسئلہ:از صوفی محمد صدیق نوری ۲۰ جواہر مارگ اندور (ایم پی) 

کیا فرماتے ہیں حضرت فقیہ ملت صاحب قبلہ اس مسئلہ میں کہ آپ کی تصنیف ’’بدمذہبوں سے رشتے‘‘ ص ۶ پر ہے کہ گمراہ مسلمان وہ بدمذہب ہے جو ضروریات اہل سنت میں سے کسی بات کا انکار کرتا ہو مگر اس کی بدمذہبی حد کفر نہ پہنچی ہو، دریافت طلب یہ امر ہے کہ ضروریات اہلسنّت کیا ہیں؟ کم از کم دو تین مثالیں دے کر سمجھائیں، اور حضرت کی تحریر سے ظاہر ہے کہ جس شخص کی بدمذہبی حد کفر تک نہ پہنچی ہو اسے کافر نہیں کہا جائے گا بلکہ اسے مسلمان کہا جائے گا تو پھر ایسے شخص کے بارے میں اس حدیث شریف کا مطلب کیا ہو گا کہ بدمذہب دین اسلام سے اس طرح نکل جاتا ہے جیسے گوندھے ہوئے آٹے سے بال۔ بینوا توجروا۔

الجواب:کتاب بدمذہبوں کے رشتے میں جو کچھ لکھا گیا ہے وہ حق ہے، بیشک وہ شخص جو ضروریات دین میں سے کسی بات کا انکار نہ کرے مگر ضروریات اہلسنّت میں سے کسی بات کو نہ مانے تو وہ گمراہ مسلمان ہے کافر نہیں ہے اور جو باتیں کہ احادیث مشہورہ سے ثابت ہیں وہ سب ضروریات اہلسنّت ہی سے ہیں اور ان میں سے کسی ایک بات کا انکار کرنے والا گمراہ مسلمان ہو گا اسے کافر ہی قرار دیا جائے گا، جیسا کہ رئیس الفقہاء حضرت ملا جیون علیہ الرزحمۃ والرضوان استاذ شہنشاہ عالمگیر اصول فقہ کی اپنی مشہور زمانہ کتاب نور الانوار کے ص ۱۷۷ پر تحریر فرماتے ہیں: لا یکفر جاحدہ لا بل یضلل علی الاصح یعنی اصح مذہب پر حدیث مشہور کے انکار کرنے والے کو کافر نہیں قرار دیا جائے گا بلکہ اسے گمراہ ٹھہریا جائے گا، خلاصہ یہ کہ وہ کافر نہیں ہو گا بلکہ گمراہ مسلمان ہو گا، مثلاً حضرت شیخ عبد الحق محدث دہلوی بخاری علیہ الرحمۃ والرضواان تحریر فرماتے ہیں کہ اسراء از مسجد حرام ست تا مسجد اقصیٰ ومعراج از مسجد اقصی ست تا آسماں، واسراء ثابت ست بنص قرآن ومنکرآں کافر ست ومعراج باحادیث مشہورہ کہ منکر آں ضال مبتدع ست۔ یعنی مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ تک اسراء ہے اور مسجد اقصیٰ سے آسمان تک معراج ہے، اسراء نص قرآنی سے ثابت ہے اس کا انکار کرنے والا کافر ہے، اور معراج احادیث مشہور سے ثابت ہے اس کا انکار کرنے والا گمراہ اور بد دین ہے (یعنی کافر نہیں ہے) (اشعۃ اللمعات جلد چہارم ص ۵۲۷) اور حضرت علامہ سعد الدین تفتازانی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ تحریر فرماتے ہیں: المعراج لرسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم فی الیقظۃ بشخصہ الی السماء ثم الی ما شاء اللہ تعالیٰ من العلی حق ای ثابت بالخبر المشہور حتی ان منکرہ یکون مبتدعًا۔ یعنی حالت بیداری میں جسم اطہر کے ساتھ آسمان اور اس کے اوپر جہاں تک خداتعالیٰ نے چاہا سرکار دو عالم صلی اﷲ علیہ وسلم کا تشریف لے جانا احادیث مشہورہ سے ثابت ہے اس کا انکار کرنے والا بد دین ہے ’کافر نہیں ہے بدمذہب مسلمان ہے‘۔(شرح عقائد نسفی ص ۱۰۰)

اور سیّد الفقہاء حضرت ملا جیون رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ تحریر فرماتے ہیں:

ان المعراج الی المسجد الا قصی قطعی ثابت بالکتاب والی سماء الدنیا ثابت بالخبر المشہور والی مافوقہ من السموات ثابت بالاحاد فمنکر الاوّل کافر البتۃ ومنکر الثانی مبتدع مضل ومنکر الثالث فاسق۔ یعنی مسجد اقصیٰ تک معراج قطعی ہے، قرآن سے ثابت ہے اور آسمان دنیا تک حدیث مشہور سے ثابت ہے اور آسمانوں سے اوپر تک حدیث احاد سے 

ثابت ہے تو پہلے کا منکر قطعی کافر ہے اور ثانی کا منکر بد دین گمراہ ہے اور تیسرے کا منکر فاسق ہے۔(تفسیر احمدیہ ۳۲۸) یعنی معراج کی رات حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کا آسمان دنیا تک تشریف لے جانا جو حدیث مشہور سے ثابت ہے اسے ماننا ضروریات اہلسنّت میں سے ہے، لہٰذا جوشخص اس کا انکار کرے اسے کافر نہیں قرار دیا جائے گا، بلکہ اسے بد دین گمراہ مسلمان ٹھہرایا جائے گا، اور معراج کی رات حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کا مسجد اقصی میں داخل ہونے کو ماننا یہ بھی ضروریاتِ اہلسنّت میںسے ہے، اس لئے کہ یہ بھی حدیث مشہور سے ثابت ہے قرآن مجید سے ثابت نہیں ہے اور وہ جو خداتعالیٰ کا قول من المسجد الحرام الی المسجد الاقصیٰ ہے، تو اس میں کلمہ الی امتداد کے لئے ہے، لان صدر الکلام لا یتناول ماوراء الغایۃ اذا الاسراء یجوزان یکون فرسخا او فرسخین۔اسی بنیاد پر اصول فقہ کی مشہور کتاب اصول الشاشی ص ۶۲ پر بحث الی کے حاشیہ نمبر ۱۰ میں ہے:من انکر دخول النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم فی المسجد الاقصی لیلۃ المعراج لا یکفر ولکن یکون مبتد عالا نکارہ بالخبر الصحیح کذا فی المعدن۔ یعنی جو شخص نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کا معراج کی رات مسجد اقصیٰ میں داخل ہونے کا انکار کرے وہ کافر نہیں قرار دیا جائے گا، بلکہ حدیث صحیح کے انکار کے سبب اسے بدمذہب ٹھہرایا جائے گا، ایسا ہی معدن میں ہے اور حضرات شیخین یعنی حضرت ابوبکر صدیق وعمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہما کو سارے صحابہ سے افضل ماننا، حضرت عثمان غنی اور حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے محبت کرنا اور مسح علی الخفین کو جائز ماننا یہ سب ضروریات اہلسنّت میں سے ہیں، یعنی جو شخص شیخین کو سارے صحابہ سے افضل نہ مانے، حضرت عثمان غنی وحضرت علی رضی اﷲ عنہما سے محبت نہ کرے یا مسح علی الخفین کو جائز نہ مانے اسے کافر نہیں قرار دیا جائے گا بلکہ اسے گمراہ بدمذہب مسلمان مانا جائے گا، ہدایہ اوّلین ص ۴۰ باب المسح علی الخفین کے حاشیہ نمبر ۱۴ پر نہایہ کے حوالہ سے ہے: سئل ابوحنیفۃ عن مذہب اہل السنۃ والجماعۃ فقال ھوان یفضل الشیخین یعنی ابا بکر وعمر علی سائر الصحابۃ وان یحب الختنین یعنی عثمان وعلی وان یری المسح علی الخفین …اور اعلیٰ حضرت پیشوائے اہلسنّت مجدددین وملت امام احمد رضا بریلوی رضی اللہ عنہ ربہ القوی تفضیلی کے پیچھے نماز پڑھنے کے متعلق ایک سوال کے جواب میں تحریر فرماتے ہیں کہ تمام اہلسنّت کا عقیدہ اجماعیہ ہے کہ صدیق اکبر وفاروق اعظم رضی اللہ عنہما مولیٰ علی کرم اللہ وجہہ الکریم سے افضل ہیں، آئمہ دین کی تصریح ہے کہ جو مولیٰ علی کو ان پر فضیلت دے مبتدع بدمذہب ہے، اس کے پیچھے نماز مکروہ ہے، فتاویٰ خلاصہ وفتح القدیر وبحر الرائق وفتاویٰ عالمگیریہ وغیرہا کتب میں ہے: ان فضل علیا علیھما فمبتدع، اگر کوئی مولیٰ علی کو صدیق وفاروق پر فضیلت دے تو مبتدع (یعنی بدمذہب) ہے۔ 

غنیہ وردالمحتار وغیرہما میں ہے: الصلٰوۃ خلف المبتدع تکرہ بکل حال۔ بدمذہب کے پیچھے ہر حال میں نماز مکروہ ہے۔ 

ارکان اربعہ میں ہے: الصلوٰۃ خلفھم تکرہ کراہۃ شدیدۃ۔ تفضیلیوں کے پیچھے نماز سخت مکروہ ہے یعنی مکروہ تحریمی ہے، کہ پڑھنی گناہ اور پھیرنی واجب (فتاویٰ رضویہ جلد سوم ۶۷- ۲۷۷) اس فتویٰ میں اعلیٰ حضرت عظیم البرکت نے تفضیلیوں کو بدمذہب قرار دینے کے ساتھ ان کے پیچھے نماز پڑھنے کو مکروہ تحریمی واجب الاعادہ ٹھہرایا معلوم ہوا کہ بدمذہب مسلمان ہوتا ہے اگرچہ بد 

ترین مسلمان ہوتا ہے اسی لئے اس کے پیچھے نماز مکروہ ہوتی ہے اگر وہ مسلمان نہ ہوتا بلکہ کافر ہوتا تو اس کی اقتداء میں نماز باطل محض ہوتی، جیسا کہ فتاویٰ رضویہ کی اسی جلد کے ص ۱۹۵ پر ندویوں کے پیچھے نماز جائز یا ناجائز ہونے کے متعلق ایک سوال کے جواب میں اعلیٰ حضرت تحریر فرماتے ہیں: ندویوں میں کچھ نیچری ہیں کچھ منکرات ضروریات دین رافضی، یہ با لاجماع کافر ومرتد ہیں اور ان کے پیچھے نماز محض باطل …اور تحریر فرماتے ہیں کہ غیر مقلد کے پیچھے نماز باطل محض ہے، (فتاویٰ رضویہ جلد سوم ص ۲۶۴) معلوم ہوا کہ منکرین ضروریات دین اور غیر مقلد جو کافر ہیں ان کے پیچھے نماز باطل محض ہے اور تفضیلی جو منکر ضروریات اہلسنّت ہے اس کے پیچھے نماز ہو جاتی ہے لیکن مکروہ تحریمی واجب الاعادہ ہوتی ہے۔اگر وہ مسلمان نہ ہوتا بلکہ کافر ہوتا تو اس کی اقتداء میں نماز باطل محض ہوتی، جیسا کہ فتاویٰ رضویہ کی اسی جلد کے ص ۱۹۵ پر ندویوں کے پیچھے نماز جائز یا ناجائز ہونے کے متعلق ایک سوال کے جواب میں اعلیٰ حضرت تحریر فرماتے ہیں: ندویوں میں کچھ نیچری ہیں کچھ منکرات ضروریات دین رافضی، یہ بالاجماع کافر ومرتد ہیں اور ان کے پیچھے نماز محض وباطل …اور تحریر فرماتے ہیں کہ غیر مقلد کے پیچھے نماز باطل محض ہے (فتاویٰ ر ضویہ جلد سوم ص ۲۶۴) معلوم ہوا کہ منکرین ضروریات دین اور غیر مقلد جو کافر ہیں ان کے پیچھے نماز باطل محض ہے، اور تفضیلی جو منکر ضروریات اہلسنّت ہے اس کے پیچھے نماز ہو جاتی ہے لیکن مکروہ تحریمی واجب الاعادہ ہوتی ہے، اس لئے کہ اس کی بدمذہبی حد کفر کو نہیںپہنچی ہے، اس مضمون کو فتاویٰ رضویہ کی اسی جلد کے ص ۱۷۰ پر واضح الفاظ میں یوں تحریر فرماتے ہیں کہ جس شخص کی بد عت حد کفر تک نہ ہو نماز اس کے پیچھے مکروہ تحریمی ہے اور جو اس حد تک پہنچ گئی تو اقتداء اس کی اصلاً صحیح نہیں اور حضرت صدر الشریعہ علیہ الرحمۃ والرضوان تحریر فرماتے ہیں: جس بدمذہب کی بدمذہبی حد کفر تک نہ پہنچی ہو جیسے تفضیلیہ اس کے پیچھے نماز مکروہِ تحریمی ہے (بہار شریعت حصہ سوم ص ۱۱۰ بحوالۂ عالمگیری) ان ساری تفصیلات سے اظہر من الشمس ہو گیا کہ جس کی بدمذہبی حد کفر کو نہ پہنچی ہو اسے کافر نہیں کہا جائے گا بلکہ ایسے شخص کو گمراہ مسلمان کہا جائے گا اور مسلمانوں میں بہت سے ایسے لوگ ہیں جو صرف گمراہ ہیں کافر نہیں ہیں رہی وہ حدیث جو سوال میں مذکور ہے کہ بدمذہب دین اسلام سے ایسے نکل جاتا ہے جیسے گوندھے ہوئے آٹے سے بال، اس کا مطلب کیا ہے؟ تو اسی مضمون کی بعض حدیثیں دوسروں سے متعلق بھی ہیں مثلاً سرکار اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: من مشی مع ظالم لیقویہ وھو یعلم انہ ظالم فقد خرج من الاسلام۔ یعنی جو شخص ظالم کو تقویت دینے کے لئے یہ جانتے ہوئے اس کا ساتھ دے کہ وہ ظالم ہے تو تحقیق وہ اسلام سے خارج ہو گیا (انوار الحدیث ص ۴۲۷ بحوالہ بیہقی) تو جس طرح اس حدیث شریف میں اسلام سے خارج ہو گیا کا مطلب یہ ہے کہ ایسا شخص اسلام کی خوبیوں سے نکل گیا، اسی طرح حدیث مذکور کا بھی مطلب یہ ہے کہ بدمذہب جس کی بدمذہبی حد کفر کو نہ پہنچی ہو وہ اسلام کی خوبیوں سے اسی طرح نکل جاتا ہے، جس طرح گوندھے ہوئے آٹے سے بال۔ ھٰذا ما عندی والعلم بالحق عند اللّٰہ تعالٰی رسولہ جل مجدہ وصلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم۔

کتبہ:جلال الدین احمد الامجدیؔ

                    ۲۴؍ ربیع النور ۷۱۴۱۶



ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے