مسئلہ:از ماسٹر اقبال احمد خان اشرفی معرفت چنن بھائی، پانڈے احاطہ، شہر گوکھپور
اگر ماں یا باپ اپنے کسی بیٹا یا بیٹی کے بارے میں کہہ دیں کہ میں نے عاق کر دیا، میری جائیداد سے اس کو حصہ نہ دیا جائے میں نے اسے اپنی میراث سے محروم کر دیا، تو اس صورت میں وہ لڑکا لڑکی اپنے ماں باپ کی وراثت سے محروم ہو جائیں گے یا نہیں؟
الجواب:توریث ورثہ بحکم شریعت ہے، مورث اپنے کسی وارث کی وراثت کو باطل نہیں کر سکتا یہاں تک کہ وارث بھی اپنے حق وارث سے دستبردار نہیں ہو سکتا، لہٰذا ماں باپ اپنے کسی بیٹے یا بیٹی کو وراثت سے محروم نہیں کر سکتے، ان کا یہ کہنا میں نے فلاں کو اپنی وراثت س محروم کر دیا لغو ہے، اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خاں بریلوی علیہ الرحمۃ والرضوان تحریر فرماتے ہیں رہا باپ کا اولاد کو اپنی میراث سے محروم کرنا وہ اگر یوں ہو کہ زبان سے لاکھ بار کہے کہ میں نے اسے محروم لا وارث کر دیا میرے مال میں اس کا کچھ حق نہیں یا میرے ترکہ سے اسے کچھ حصہ نہ دیا جائے یا خیال جہال کا وہ لفظ بے اصل کہ میں نے اسے عاق کر دیا یا انہیں مضامین کی لاکھ تحریریں لکھے رجسٹریاں کرائے یا اپنا کل مال اپنے فلاں وارث یا کسی غیر کو ملنے کی وصیت کر جائے ایسی ہزار تدبیریں ہوں کچھ کارگر نہیں نہ ہر گز وہ ان وجوہ سے محروم الارث ہو سکے کہ میراث حق مقرر فرمودۂ ربّ العزت جلا وعلا ہے جو خود لینے والے کے اسقاط سے ساقط نہیں ہو سکتا بلکہ جبراٰ دلایا جائے گا اگرچہ وہ لاکھ کہتا رہے کہ مجھے اپنی وراثت سے منظور نہیں میں حصہ کا مالک نہیں بنتا میں نے اپنا حق ساقط کیا، پھر دوسرا کیونکہ ساقط کر سکتا ہے، قال اللّٰہ تعالٰی:یُوْصِیْکُمُ اللّٰہُ فِیْ اَوْلَادِکُمْ لِلذَّکَرِ مِثْلُ حَظِّ الْاُنْثَیَیْنِ۔اشباہ میں ہے: لوقال الوارث ترکت حقی لم یبطل حقہ، غرض بالقصد محروم کرنے کی کوئی سبیل نہیں، ہاں اگر حالت صحت میں اپنا مال اپنی ملک سے زائل کر دے تو وارث کچھ نہ پائے گا کہ جب ترکہ ہی نہیں تو میراث کا ہے میں جاری ہو، گر اس قصد ناپاک سے جو فعل کرے گا عند اللہ گنہگار وماخوذ رہے گا حدیث میں ہے حضور پر نور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم فرماتے ہیں: من فرمن میراث ورثہ قطع اللہ میراثہ من الجنہ یوم القیمۃ۔ جو اپنے وارث کو اپنا ترکہ پہنچانے سے بھاگے اللہ تعالیٰ روز قیامت اس کی میراث جنت سے قطع فرما دے۔ رواہ ابن ماجۃ عن انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ (فتاویٰ رضویہ جلد ہفتم ص ۳۲۵)۔ وھو سبحانہ وتعالیٰ اعلم۔
کتبہ:جلال الدین احمد الامجدیؔ
0 تبصرے